''یا حسین، یا شہیدِ کربلا ہو دُور ہر رنج وبلا'' کے اِکتِّیس

حروف کی نسبت سے یومِ عاشوراء کی اکتِّیس خصوصیَّات


    حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،حضور نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ برکت نشان ہے(۱): ''(1)۔۔۔۔۔۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے بنی اسرائیل پر سال میں ایک دن کا روزہ فرض کیا اور وہ یومِ عاشوراء کاروزہ ہے اور اس سے مراد ماہِ محرم کادسواں دن ہے۔لہٰذا تم بھی اس دن کا روزہ رکھو اوراپنے گھر والوں پر کھلا خرچ کرو (شُعَبُ الایمان میں ہے:) ''جو اس دن اپنے اہل و عیال پر مال میں فراخی وکشادگی کرتا ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس پرتمام سال رزق وافر فرمائے گا۔''  (شُعَب الایمان، باب فی الصیام،صوم التاسع مع العشر،الحدیث۳۷۹۵ ،ج۳،ص۳۶۶) پس تم اس دن کا روزہ
رکھو کہ(2)۔۔۔۔۔۔اسی دن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی توبہ قبول فرما کر انہیں صَفِیُّ اللہ کے مقام پر فائز فرمایا (3)۔۔۔۔۔۔اسی دن حضرت سیِّدُنا ادریس علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا(4)۔۔۔۔۔۔ اسی دن حضرت سیِّدُنا نوح نجی اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو کشتی میں طوفان سے نکالا(5)۔۔۔۔۔۔اسی دن حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو آگ سے نجات ملی (6)۔۔۔۔۔۔اسی دن حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام پر تورات نازل فرمائی (7)۔۔۔۔۔۔ اسی دن حضرت سیِّدُنا یوسف علیہ الصلٰوۃ والسلام کو قید سے رہائی ملی(8)۔۔۔۔۔۔ اسی دن حضرت سیِّدُنایعقوب علیہ الصلٰوۃوالسلام کی بینائی کاضُعْف دُور ہوا(9)۔۔۔۔۔۔ اسی دن حضرت سیِّدُنا ایوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تکلیف رفع کی گئی (10)۔۔۔۔۔۔ اسی دن حضرت سیِّدُنا یونس علیہ الصلٰوۃ والسلام مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے (11)۔۔۔۔۔۔ اسی دن دریا نے پھٹ کر بنی اسرائیل کو راستہ دیا(12)۔۔۔۔۔۔ اسی دن حضرت سیِّدُناداؤد علیہ الصلٰوۃ والسلام کی لغزش معاف ہوئی (13)۔۔۔۔۔۔اسی دن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مُلکِ عظیم عطا فرمایا اور(14)۔۔۔۔۔۔ یہی وہ دن ہے جس دن نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دوجہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو آپ کے سبب آپ کے اگلوں پچھلوں کے  گناہ معاف کرنے کا مژدۂ  جاں فزا سنایا گیا(15)۔۔۔۔۔۔یہی وہ پہلا دن ہے جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے دنیا کو پیدا کیا (16)۔۔۔۔۔۔ اسی دن آسمان سے پہلی بارش برسی اور(17)۔۔۔۔۔۔ زمین پر سب سے پہلی رحمت بھی اسی دن اُتری (18)۔۔۔۔۔۔جس نے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا گویا اس نے سارا زمانہ روزہ رکھا کہ یہ انبیاء کرام علیہم الصلٰوۃ والسلام کا روزہ ہے (19)۔۔۔۔۔۔جس نے شبِ عاشوراء کو شب بیداری کی گویا اس نے ساتوں آسمان والوں کے برابر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عباد ت کی (20)۔۔۔۔۔۔جس نے اس رات چار رکعات اس طرح ادا کیں کہ ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۂ  فاتحہ اور اِکاوَن(51) بار سورۂ  اخلاص پڑھی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے پچاس سال کے  گناہ معاف فرما دے گا (21)۔۔۔۔۔۔جس نے عاشوراء کے دن کسی کو پانی پلایا اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑی پیاس کے دن (یعنی بروزِ قیامت) اسے ایسا جام پلائے گاکہ اس کے بعد وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا اور وہ ایسا ہو جائے گا گویا اس نے لمحہ بھر بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کی(22)۔۔۔۔۔۔جس نے اس دن کچھ صدقہ کیا گویا اس نے کسی سائل کو کبھی خالی نہیں لوٹایا(23)۔۔۔۔۔۔جس نے عاشوراء کے دن غسل کیاتو وہ مرضِ موت کے سوا کسی مرض میں مبتلا نہ ہو گا (24)۔۔۔۔۔۔ جس نے اس دن کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا یا اس سے حسن سلوک کیا گویا وہ تمام اولادِ آدم کے یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آیا(25)۔۔۔۔۔۔جس نے اس دن کسی مریض کی عیادت کی گویا اس نے بنی آدم کے تمام مریضوں کی عیادت کی(26)۔۔۔۔۔۔اسی دن عرش(27)۔۔۔۔۔۔ لوح اور (28)۔۔۔۔۔۔ قلم پیداکئے گئے (29)۔۔۔۔۔۔ اسی دن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا جبرائیل امین علیہ السلام کو پیدا فرمایا (30)۔۔۔۔۔۔اسی دن حضرت سیِّدُناعیسیٰ علیہ الصلٰوۃ والسلام کو آسمانوں کی طرف
اُٹھایاگیا اور(31)۔۔۔۔۔۔ اسی دن قیامت قائم ہو گی۔''

    (الموضوعات لابن الجوزی،کتاب الصیام،باب فی ذکر عاشوراء، ج۲،ص۲00۔الالیئ المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ، کتاب الصیام،ج۲،ص۹۲۔۹۳۔حاشیۃ اعانۃ الطالبین، باب الصوم، فصل فی صوم التطوع ، ج۲، ص۴۴۴۔۴۴۵)

    اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ مقدَّس میں ارشاد فرماتا ہے:

 (3) مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّیۡنَۃِ

ترجمۂ  کنزالایمان:تمہاراوعدہ میلے کادن ہے۔(2)(پ16،طٰہٰ:59)
     حضرت سیِّدُناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ''یہاں''یَوْمُ الزِّیْنَۃِ''سے مراد دسویں محرم کا دن ہے۔''
     وہ بندہ مبارک باد کا مستحق ہے جو اس مبارک دن میں عملِ صالح کرے اور نیکی کے کام کرکے آخرت کے لئے نفع مند تجارت کرے، اپنے  گناہوں اور خطاؤں سے توبہ کرے،نیک بن کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ ہو جائے اور دوسروں سے نصیحت حاصل کرے ، ناصح (یعنی نصیحت کرنے والے) کی بات قبول کرے، تکبر اور دعوے چھوڑدے اور تقویٰ کے راستے پر چلے۔
    حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،حضور سیِّدُ الْمبَلِّغِیْنَ، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے: ''ماہِ رمضان کے بعد افضل روزے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔'' (صحیح مسلم،کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرم،الحدیث۱۱۶۳،ص۸۶۶)

    حضرت سیِّدُناعبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یومِ عاشوراء کے روزے کے متعلق پوچھا گیاتو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ''میں نہیں جانتا کہ اللہ کے پیارے رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے باقی دنوں پر فضیلت کے طور پر یومِ عاشورہ کے علاوہ کسی دن کا اور باقی مہینوں پر فضیلت کے طور پر رمضان کے علاوہ کسی مہینے کا روزہ رکھا ہو۔''

 (صحیح مسلم،کتاب الصیام،باب صوم یوم عاشوراء،الحدیث۱۱۳۲،ص۸۵۹)

    حضرت سیِّدُنا حمید بن عبدالرحمن علیہ رحمۃ الرحمن روایت کرتے ہیں، میں نے حضرت سیِّدُنا امیرمعاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو جس سال انہوں نے حج کیا تھا ، بر سرِ منبر یہ فرماتے سنا: اے اہلِ مدینہ ! تمہارے علماءِ کرام کہاں ہیں؟میں نے سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باذنِ پروردْگارعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یہ ارشاد
فرماتے سنا: ''یہ عاشوراء کا دن ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تم پر اس کا روزہ فرض نہ کیاجبکہ میں خود روزے سے ہوں، اب تم میں سے جس کا جی چاہے و ہ روزہ رکھ لے اور جو نہ چاہے نہ رکھے ۔''

 (صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب صوم یوم عاشوراء،الحدیث۲00۳،ص۱۵۶)

    حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دیگرکئی راویوں سے مروی ہے، تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جود وسخاوت، پیکر ِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:'' اگر میں ائندہ سال تک حیات رہا تو ضرور نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھوں گا۔'' لیکن آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس سے قبل ہی وصال فرما گئے۔

    (صحیح مسلم،کتاب الصیام،باب ای یوم یصام فی عاشوراء،الحدیث۱۱۳۴،ص۸۶0.شعب الایمان للبیھقی،باب فی الصیام/صوم التاسع مع العاشر،الحدیث۳۷۸۷، ج۳،ص۳۶۴)

    یہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے دیگر روزوں کو دس محرم کے روزے کے ساتھ ملانے کا ارادہ فرمایاہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی مراد دسویں کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھناہو۔ لہٰذاحضرت سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی اور دیگر ائمۂ  کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے احتیاطاً دونوں(یعنی نویں اور دسویں محرم)کا روزہ مستحب قرار دیا ہے۔ چنانچہ، حضرت سیِّدُنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے،نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دوجہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: '' نویں اوردسویں (محرم) کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو۔''

  (جامع الترمذی،ابواب الصوم، باب ماجاء فی عاشوراء ای یوم ھو،الحدیث۷۵۵،ص۱۷۲۱)

    اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ شفاعت نشان ہے:'' جس نے یومِ عاشوراء تک محرم کے دس روزے رکھے وہ فردوسِ اعلیٰ کا وارث ہو گا۔''

    (نزھۃ المجالس،کتاب الصوم،باب فضل صیام عاشوراء ۔۔۔۔۔۔الخ،ج۱،ص۲۳۱)

     اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے اس فرمانِ عالیشان میں ان دس دنوں کی طرف اشارہ فرمایا:

 (4) وَ وٰعَدْنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ

ترجمۂ  کنزالایمان:اور ہم نے موسٰی سے تیس رات کاوعدہ فرمایااور ان میں دس اور بڑھا کر پوری کیں۔(پ9،الاعراف:142)
    محرم الحرام کے پہلے عشرہ کے بہت زیادہ فضائل وبرکات ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ بھی ہے جو حضرت سیِّدُنامعاویہ بن قرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ''حضرت سیِّدُنانوح علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام او ر آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ کشتی میں سوار لوگوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا شکر بجا لاتے ہوئے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا کیونکہ جس دن اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں طوفان سے
نجات عطا فرمائی اوران کی کشتی جُودِی پہاڑ پر ٹھہری تووہ بھی عاشوراء کادن تھا۔''

(المعجم الکبیر، الحدیث۵۵۳۸، ج۶، ص۶۹، بتغیرٍ)

    حضرت سیِّدُنا یعقوب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کے حوالے سے اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :

 (5) اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیۡ ؕ

ترجمہ کنزالایمان:جلد میں تمہاری بخشش اپنے رب سے چاہوں گا۔(پ13،یوسف: 98)
    اس آیتِ مبارکہ کے تحت حضرت سیِّدُناطاؤس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''حضرت سیِّدُنا یعقوب علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس دعائے مغفرت کرنے کو شب ِ جمعہ تک مؤخر فرمایا جو کہ شب ِ عاشوراء بھی تھی۔''

(تفسیر البغوی،سورۃ یوسف،تحت الآیۃ۹۸، ج۲، ص۳۷۷)

    حضرت سیِّدُناابن شہاب علیہ رحمۃ اللہ الوہاب ارشاد فرماتے ہیں: '' ہمیں صحابۂ  کرام و تابعینِ عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت سیِّدُنا علی بن ابی طالب، حضرت سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری ، حضرت سیِّدُنا علی بن حسین اور حضرت سیِّدُنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔''

 (المسند للامام احمد بن حنبل،مسند علی بن ابی طالب،الحدیث۱0۶۹،ج۱،ص۲۷۳،مختصرًا)

یومِ عاشوراء کی اکتِّیس خصوصیَّات Aasuhra Ke 31 Khusoosiyaat
یومِ عاشوراء کی اکتِّیس خصوصیَّات Aasuhra Ke 31 Khusoosiyaat

1۔۔۔۔۔۔اس روایت کو علامہ ابن جوزی، علامہ جلال الدین سیوطی اورعلامہ عبد الحق محدث دہلوی رحمہم اللہ تعالیٰ نے موضوع قرار دیاہے۔''(الموضوعات، ج۲، ص۲00۔الالیئ المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ،ج۲،ص۹۲۔۹۳۔ ماثبت بالسنۃ مترجم، ص۲۴)اورعلامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ '' اس کے راوی ثقہ ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بعد والوں نے اس کو وضع کرکے ان سندوں کے ساتھ ترتیب دے دی۔'' لہٰذا اسے حدیث کہہ کر بیان نہ کیا جائے۔نوٹ: اس روایت میں بیان کردہ بعض باتیں دیگر احادیث سے ثابت ہیں۔(علمیہ)
2 ۔۔۔۔۔۔مفسر شہیر، خلیفۂ  اعلیٰ حضرت صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: '' اس میلہ سے فرعونیوں کا میلہ مراد ہے جو اُن کی عید تھی، اور اس میں وہ زینتیں کرکرکے جمع ہوتے تھے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ''یہ دن عاشوراء یعنی دسویں محرم کا تھا۔''