شب ِ عاشوراء کا وسیلہ کام آگیا:


    منقول ہے، بصرہ میں ایک مال دار آدمی رہتا تھا۔ ہر سال شب ِ عاشوراء کو اپنے گھرمیں لوگوں کوجمع کرتا جو قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کا ذکرکرتے۔ اسی طرح رات بھر تلاوتِ قرآن اور ذکرِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کا سلسلہ جاری رہتا۔پھر وہ شخص سب کو کھانا پیش کرتا۔مساکین کی خبر گیری کرتا۔ بیواؤں اور یتیموں سے بھی اچھا سلوک کرتا۔اس کا ایک پڑوسی تھا جس کی بیٹی اپاہج تھی۔اس لڑکی نے اپنے باپ سے پوچھا: ''اے میرے والد ِ محترم! ہمارا پڑوسی ہرسال اس رات لوگوں کو کیوں جمع کرتا ہے؟ اور پھر سب مل کرتلاوتِ قرآن اور ذکر کرتے ہیں۔''باپ نے بتایا:'' یہ عاشوراء کی رات ہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں اس کی بہت حرمت ہے اور اس کے بہت زیادہ فضائل ہیں ۔''جب سب گھر والے سو گئے تو بچی سحری تک بیدار رہ کرقرآنِ عظیم کی تلاوت اور ذکر ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سنتی رہی۔ جب لوگوں نے قرآنِ حکیم ختم کر لیا اور دعا مانگنے لگے تو اس لڑکی نے بھی اپنا سر آسمان کی جانب اُٹھا دیا اورعرض کی: ''یااللہ عَزَّوَجَلَّ! تجھے اس رات کی حرمت کا واسطہ اوران لوگوں کا واسطہ جنہوں نے ساری رات تیرا ذکر کرتے ہوئے جاگ کر گزاری ہے! مجھے عافیت عطا فرما دے، میری تکلیف دور کر دے اور میرے دل کی شکستگی دور فرما دے۔'' ابھی اس کی دعا پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ اس کی تکلیف اور بیماری ختم ہو گئی اور وہ اپنے پاؤں پر اٹھ کھڑی ہوئی۔جب باپ نے اس کو پاؤں پر کھڑے ہوئے دیکھا تو پوچھا :'' اے میری بیٹی !کس نے تجھ سے اس رنج وغم اور مصیبت کو دور کیاہے؟''تو اس نے جواب دیا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھ پر اپنی رحمت کا بادل برسایا اور انعامات و نوازشات میں ذرہ بھر بخل نہ کیا۔اے میرے والد ِ محترم! میں نے اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اس رات کاوسیلہ پیش کیا تو اس نے میری تکلیف دور فرما دی اور میرے جسم کو صحیح فرما دیا۔''
    اے میرے اسلامی بھائیو! نفع حاصل کرنے کے زمانے کو غنیمت جانو کہ ایسے اہم دن گنتی کے ہیں۔فرصت کو غنیمت جانو کہ سلامتی کے اوقات موجود ہیں۔ جلد ازجلدخوب کوشش کرنے والے کی طرح اچھے اعمال کر لو۔ دُنیا کی فضولیات سے کنارہ کش ہو جاؤاوراس کی غلامی سے چھٹکاراحاصل کر لو،اس سے پہلے کہ تم حسرت کی گھڑی سے دو چار ہوجاؤ۔ اس کے بعد تم قبر کے تاریک گڑھے میں چلے جاؤ گے۔ کتنے ہی لوگ یوم عاشوراء سے پہلے تندرست تھے لیکن آج وہ بیمار ہیں۔کتنے ہی افراد مطمئن
تھے کہ اچانک موت کاقاصد آیا تو وہ کوچ کر گئے اورلمحہ بھر بھی نہ ٹھہر سکے ۔کتنے ہی ستونوں جیسے لوگ تھے جنہیں شہوات ولذات کے ساتھ مضبوط کیا گیاتھا مگر وہ بھی گر گئے۔ کتنے ہی موجود تھے جو اس دن کے آنے سے پہلے پہلے فنا ہو گئے ۔
    اے میرے اسلامی بھائی! عنقریب تیرا بھی یہی حال ہوگالیکن دُنیا کا دھوکا اسے تجھ سے چھپاتا ہے اور تیرابھی یہی انجام ہو گا۔ لہٰذاغور وفکرکرکہ تو کس ڈَگَر پرچل رہا ہے۔ گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تیری تندرستی بیماری میں بدل گئی ہے، عافیت ختم ہو چکی ہے،قلم نے تیری تقدیر میں مصیبتیں لکھ دی ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قضا و قدر کے مطابق تیری عمر ختم چکی ہے، تیری موت کا وقت قریب آچکا ہے اورروح ہنسلی کی ہڈی تک پہنچ چکی ہے اور تو نعمتوں کی لذت بھول چکا ہے،دل دوستوں کی جدائی پر حسرت کا شکار ہے اور چھپے ہوئے آنسو بہہ نکلے ہیں۔ تیری یہ حالت محض ایک لمحہ ہو گی پھر روح پرواز کرجائے گی اور دُکھ ڈیرے ڈال لے گا اورتُو انتہائی وحشت ناک تاریک گھر میں قیام کر ے گا۔افسوس ہے تجھ پر! اگر تجھے تیرے پروردْگار عَزَّوَجَلَّ نے  گناہوں کی سزا دی اور تجھ سے اپنی نافرمانیوں کا انتقام لیا۔افسوس ہے تجھ پر! اگر پُل صراط سے تیرے قدم پھسل گئے۔ہائے!اس پرحسرت و افسوس! جس کی حالت ایسی ہو گی، وہ کب تک خواہشات کی اس غفلت میں مبتلا رہے گا؟

شب ِ عاشوراء کا وسیلہ کام آگیا: Shab-e-Aashura Ka Waseela Kaam Aa Gaya
شب ِ عاشوراء کا وسیلہ کام آگیا: Shab-e-Aashura Ka Waseela Kaam Aa Gaya